کالمز

کابل دہلی گٹھ جوڑ ،تجارت کے نام پر دہشت گردی کا کاروبار

تحریر۔۔۔۔جاوید اقبال

آج بھارتی میڈیا افغان وزیر تجارت کے دورے کو ایک بڑی کامیابی قرار دے رہا ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک بار پھر بھارتی حکمت عملی کے پیروکار افغان طالبان نے اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے افغان طالبان کو واضح طور پر آگاہ کیا تھا کہ جب تک وہ دہشت گردی کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے نہیں روکے گے، اس وقت تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد بند رہے گی۔ تاہم طالبان نے دہشت گردی کے خاتمے کی بجائے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا اور اپنے تاجروں کو پاکستان کے ساتھ تجارت کرنے سے روک دیا۔
افغان طالبان کا یہ اعلان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کو تجارت پر ترجیح دی اور بھارت جیسے ملک کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کو اہمیت دی۔ بھارت، جو اس خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا ایکسپورٹر سمجھا جاتا ہے، اب افغانستان کا پسندیدہ ملک بن چکا ہے۔ دو ماہ کے اندر، افغان طالبان کے وزیر پے در پے بھارت کا دورہ کر چکے ہیں، جو کہ طالبان کے اسلامی بیانیے کے خلاف ایک کھلا تضاد ہے۔
بیس سال سے زائد عرصے تک طالبان کا پروپیگنڈا بھارت کو ایک ہندو "کافر” ریاست کے طور پر پیش کرتا رہا، جو کابل میں "اسلام مخالف” قوتوں کی حمایت کر رہی تھی۔ طالبان نے بامیان کے بدھ کے مجسمے کو تباہ کرنے کو "غیر اسلامی بتوں” کے خلاف جنگ قرار دیا تھا، مگر آج وہ اسی بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں، جو اپنے آپ کو بدھ اور ہندو ورثے کا محافظ اور فروغ دینے والا قرار دیتا ہے۔ اس دوغلے پن کا مظاہرہ طالبان کے اسلام سے متصادم حکمت عملی کو بے نقاب کرتا ہے۔
پہلے طالبان افغانستان کی جمہوری حکومت کو بھارت کی "کٹھ پتلی” سمجھتے تھے اور ہندوستانی قونصل خانوں کو "پاکستان اور افغانستان کے خلاف دہشت گردی کے اڈے” قرار دیتے تھے، مگر اب وہ بھارت کے ساتھ گندم کی تجارت، تعمیر نو کی فنڈنگ اور تجارتی راہداریوں کے لئے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ طالبان کی اس تبدیلی نے ان کے بیانیے کو نقصان پہنچایا ہے، جو کہ مسلمانوں کی ایک جہادی، اسلامی یکجہتی پر مبنی تھی۔ آج طالبان اپنے مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں اپنے اسلامی اصولوں کو ہی ترک کرنا پڑے۔
دہلی میں ہونے والے اعلیٰ سطحی دوروں کے دوران طالبان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم پر شرمناک خاموشی اختیار کی ہے۔ کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر مظالم، مساجد کی مسماری، جبری تبدیلی مذہب، حجاب پر پابندی، اور ہجوم کے ذریعے قتل جیسے واقعات پر طالبان کی خاموشی ان کے منافقانہ موقف کو ظاہر کرتی ہے۔ طالبان نے ہمیشہ کشمیر میں بھارت کی ظلم و جبر کی مذمت کی تھی، لیکن اب وہ بھارتی حکمرانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے ان کی پوزیشن میں واضح تضاد نظر آ رہا ہے۔
افغان طالبان نے جب پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں مشکلات کا سامنا کیا، تو انہوں نے اپنے مسلم پڑوسی کے ساتھ مسائل حل کرنے کے بجائے، بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دی۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ طالبان کے لیے تجارت اور سیاسی مفادات اسلامی اصولوں سے کہیں زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔ ان کے اسلامی بیانیے کی حقیقت اب سامنے آ گئی ہے اور ان کے دعوے کے برعکس، طالبان کسی بھی موقع پر اپنے مفادات کے لیے مذہب کو پس پشت ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔
اس صورتحال نے افغانستان میں اسلامی تعلیمات سے وابستہ حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے، اور وہ طالبان کی بھارت نواز پالیسی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار اور ان پر ہونے والے مظالم پر طالبان کی خاموشی پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ طالبان نے ایک وقت میں اپنے اسلامی بیانیے کا پرچم بلند کیا تھا، لیکن آج وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں ملوث ہیں، جس کی حقیقت میں تجارتی مفادات اور دہشت گردی کے کاروبار کو مزید آگے بڑھانے کی کوششوں کو چھپایا جا رہا ہے۔
افغان طالبان کے یہ اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اپنے اصولوں اور وعدوں سے پیچھے ہٹ چکے ہیں، اور اب وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا کر اپنے ناپاک مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طالبان کے اس دوغلے رویے نے ان کے چہرے سے اسلام کا پردہ ہٹا دیا ہے، اور ان کے اقدامات نے ان کے اسلامی بیانیے کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ کابل دہلی گٹھ جوڑ ،تجارت کے نام پر دہشت گردی کا کاروبار

مزید دکھائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button