وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ جنوبی پنجاب پکار رہا ہے، کر گزریں!عوام ہمیشہ آپ کے ترانے گائیں گے
تحریر۔۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری
جنوبی پنجاب کے لوگ آج پھر اپنی محرومیوں کے بوجھ کے ساتھ لاہور کی طرف دیکھ رہے ہیں؛ وہی امید کی ڈور ہاتھ میں تھامے ، جو ہر انتخاب کے موسم میں ذرا سی چمکتی ہے اور پھر برسوں کے اندھیروں میں مدھم ہو جاتی ہے۔ یہ اندھیرے محض بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے نہیں، یہ عزتِ نفس کے اندھیرے ہیں ، یہ ناانصافی کے اندھیرے ہیں، یہ اس سوال کے اندھیرے ہیں کہ کیا ہم بھی اسی پنجاب کے شہری ہیں جس کے فیصلے کاغذ پر ہمارے نام سے شروع ہوتے ہیں مگر عملی زندگی میں کہیں اور جا کے ختم ہو جاتے ہیں؟ یہ سوال آج صرف سیاست سے نہیں، تاریخ سے پوچھا جا رہا ہے اور تاریخ نے آپ کے دروازے پر دستک دی ہے، مریم نواز،یہ موقع دوبارہ نہیں آئے گا۔
جنوبی پنجاب کے کھیتوں میں جب گندم کی بالیاں سنہرا رنگ لیتی ہیں تو کسان کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے۔ وہ چمک اس خواب کی ہوتی ہے کہ اس سال شاید قرض اتر جائے، شاید بیٹی کے جہیز کے لیے کچھ جمع ہو جائے، شاید بیٹے کی فیس وقت پر ادا ہو جائے ۔ مگر تھریشر کی گڑگڑاہٹ تھمتی ہے تو حقیقت کا بوجھ پھر شانے پر آ گرتا ہے: وہی پرانا حساب، وہی بیوپاری کی شرطیں، وہی بروقت ادائیگی کا بحران، وہی کاشتکار کا نام بینک کی فہرست میں۔ کسان کہتا ہے، ‘‘ہم نے زمین کو زندہ رکھا ، مگر کسی نے ہمیں جینے نہیں دیا۔’’ اس کی بیوی کہتی ہے، ‘‘ہماری بیٹی سکول جانا چاہتی ہے، مگر سکول کا کمرہ ٹوٹا ہوا ہے ، استانی ہفتے میں دو دن آتی ہے، اور بارش ہو تو چھت ٹپکتی ہے۔’’ یہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں ، یہ میلوں تک پھیلا ہوا سچ ہے، جس کی گونج مظفرگڑھ کے کناروں سے لے کر راجن پور کے ڈیلٹوں تک سنائی دیتی ہے، اور جس میں ڈیرہ غازی خان کے پہاڑ بھی شامل ہیں، بہاولپور کی ریت بھی اور لیہ کے بیلے بھی۔
لاہور کی روشنیوں کی اپنی جگہ ایک تاریخ ہے،فلائی اوور، سگنل فری روٹ، میٹرو، اورنج لائن،مگر سوال یہ ہے کہ کیا ترقی کی یہ لغت پورے پنجاب کی زبان ہے؟ جنوبی پنجاب کے دیہات میں لوگ آج بھی کچے راستوں پر چلتے ہیں، ایمرجنسی آئے تو ایمبولینس راستے میں دھنس جاتی ہے، زچگی کے وقت قریبی مرکزِ صحت میں انستھیزیا دستیاب نہیں ہوتا، کینسر کی تشخیص کے لیے لوگ لاہور کا رخ کرتے ہیں، اور جب تک ٹیسٹ کی تاریخ آتی ہے، بیماری کئی قدم آگے نکل چکی ہوتی ہے۔ یہ وہ روزانہ کی وحشت ہے جسے اخبار نہیں بناتا، مگر یہ وہ زندگی ہے جس سے ووٹ نکلتا ہے اور جس کی دعا یا بددعا سے حکومتوں کی عمر بڑھتی یا گھٹتی ہے۔
مریم بی بی، حکومتیں سڑکوں سے نہیں، انصاف سے بنتی ہیں۔ انصاف کا پہلا اصول قریب سے فیصلہ ہے،وہ فیصلہ جو مسئلے کی دھول دیکھتا ہے، جو کسان کے ہاتھ کی محنت سونگھتا ہے، جو مریض کے چہرے کی زردی پڑھتا ہے، جو مدرسے اور سکول کے درمیان بھٹکنے والے بچے کی آنکھ میں سوال پہچانتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگ آج ایک واضح اور سیدھی بات کہتے ہیں جیسے لاہور میں ہر محکمہ کے بااختیار سیکرٹری بیٹھ کر پورے پنجاب کے فیصلے کرتے ہیں ، ویسے ہی ملتان میں بیٹھے سیکرٹری پورے جنوبی پنجاب کے فیصلے کریں،کسی ‘‘اسپیشل’’ لیبل کی لاٹھی کے بغیر، مکمل آئینی و انتظامی اختیار کے ساتھ۔ صحت ہو یا تعلیم، آبپاشی ہو یا زراعت، پولیس ہو یا داخلہ، تعمیرات ہو یا سماجی بہبود،ہر محکمہ کا اپنا مستقل اور بااختیار سیکرٹری ملتان میں دفتر لگائے، فائلیں وہیں چلتیں، احکامات وہیں صادر ہوں، معائنہ وہیں سے ہو، جواب دہی وہیں ہو۔ اور بہاولپور کے حصے کی محرومی ختم کرنے کے لیے وہاں مستقل سپیشل سیکرٹری نہیں، ایک ایسا باعمل ڈپٹی ایڈمنسٹریٹو ہیڈ بیٹھے جو روزانہ کی بنیاد پر شکایات، مرمت، بحالی اور علاقائی منصوبہ بندی کے فیصلے موقع پر کرے، جسے فیصلے کے لیے لاہور کی فون کال کا منتظر نہ رہنا پڑے۔ یہ انتظامی اصلاح دکھاوے کی نہیں، زندگی کی ضرورت ہے۔ اسے کاغذ کی پریس ریلیز میں نہیں، دفاتر کی چابیاں ہاتھ میں دینے سے ثابت کرنا ہوگا۔
دوسرا اصول وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے۔ جنوبی پنجاب آبادی کے اعتبار سے پنجاب کا ایک تہائی ہے اس کا حق بھی ترقیاتی بجٹ میں کم از کم اتنا ہی ہونا چاہیے،کم از کم چونتیس (34) فیصد۔ یہ کوئی جذباتی نعرہ نہیں ، یہ بنیادی حساب ہے؛ بجٹ کے پہلے صفحے پر لکھی جانے والی سیدھی لائن ۔ لیکن بجٹ اعلان سے زیادہ عمل چاہتا ہے: اجراء کی ٹائم لائن، ماہانہ ریلیز، ضلع وار تقسیم، اور منصوبہ وار پیش رفت کی پبلک ڈیش بورڈتاکہ ہر شہری اپنے فون پر دیکھ سکے کہ اس کے گاؤں کی سڑک کا ٹینڈر کب کھلا، سکول کی عمارت کی اینٹ کب رکھی گئی، بنیادی مرکزِ صحت میں الٹراساؤنڈ مشین کب نصب ہوئی، ٹیوب ویل کی مرمت کب مکمل ہوئی۔ شفافیت صرف نعرہ نہیں، اعتماد کا دوسرا نام ہے؛ اور اعتماد وہ کرنسی ہے جس سے دل جیتے جاتے ہیں۔
تیسرا اصول آفت زدہ علاقوں کے لیے مسلسل اور مختص بجٹ ہے۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع ہر سال سیلاب کے ہاتھوں زخم کھاتے ہیں۔ سیلاب جاتے جاتے سڑکیں لے جاتا ہے، نہریں توڑ دیتا ہے، کھیتوں پر ریت بچھا دیتا ہے، کنوئیں مٹی سے بھر دیتا ہے، اور نصیب میں بے گھری، قرض اور بیماری چھوڑ جاتا ہے۔ اس کا علاج امدادی تھیلے نہیں، خصوصی ڈویلپمنٹ بجٹ ہے جو صرف بحالی اور دوبارہ آبادکاری کے لیے مختص ہوسیلاب سے متاثرہ یونین کونسلوں کے لیے علیحدہ فنڈ لائن، تیز رفتار ریہیبلیٹیشن یونٹس، فلڈ پروٹیکشن بندوں کی مضبوطی، بیلوں کی زمین کی بحالی، نمکیات کے علاج کے لیے مٹی کی تھراپی، اور چھوٹے کاشتکار کے لیے کھاد، بیج اور ڈیزل کی مشروط سبسڈی تاکہ اگلا موسم اس کے لیے نوحہ نہیں، نئی امید لے کر آئے۔ اس بجٹ کے اجرا میں ‘‘فوری’’ صرف بیان نہیں ہونا چاہیے؛ اس کے ساتھ ڈلیوری کی تاریخ، ذمہ دار افسر اور عوامی شکایت نمبرز بھی جاری ہوںاور ان پر روزانہ عمل کی رپورٹ۔ جب ریاست روزانہ کی بنیاد پر جواب دے گی، تب ہی عوام روزانہ کی بنیاد پر دعا دیں گے۔
چوتھا اصول ‘‘حاکمِ نزدیک’’ کا ہے قانون اور نظم و نسق کی وہ موجودگی جو خوف نہیں، تحفظ کا احساس دے۔ تھانہ اگر انصاف دے تو شہری عدالت کے چکر نہیں لگاتا۔ اس لیے جنوبی پنجاب میں پولیس اور داخلہ کے فیصلوں کے لیے مستقل ایڈیشنل آئی جی اور ہوم سیکرٹری کا دفتر ملتان میں ہونا چاہیے، جہاں تبادلے دور کی مصلحت سے نہیں، قریب کے امن کی ضرورت سے طے ہوں۔ کمیونٹی پولیسنگ یونٹس، خواتین شکایت سیلز، منشیات کے خلاف مقامی ایکشن پلان، سکول کالج یونیورسٹی روٹس کی سیفٹی کورڈنیشن، اور خانہ بدوش کمیونٹیز کی رجسٹریشن یہ سب تب ممکن ہے جب قلم وہیں چلے جہاں مسئلہ سانس لیتا ہے۔
پانچواں اصول انسانی وقار کی محافظ فلاحی ریاست ہے۔ بی آئی ایس پی کے کارڈ اور سیلابی امداد کے ٹوکن تب عزت بنتے ہیں جب وہ قطار میں کھڑے بوڑھے کی چھڑی سے پہلے پہنچ جائیں۔ جنوبی پنجاب کے لیے ‘‘سماجی تحفظ’’ کا مطلب صرف نقد امداد نہیں اب خدمت کے باوقار دروازے کھولنے ہیں مقامی سطح پر روزگار کے مراکز، دستکاری کے کارخانوں کے لیے مائیکرو فنانس، بیواؤں اور معذوروں کے لیے ترجیحی صحت انشورنس، سیلابی یتیم بچوں کے لیے ہاسٹل سکیم، دیہی لڑکیوں کے ہائی سکولوں میں محفوظ ٹرانسپورٹ، اور گھریلو صنعت کو ای کامرس سے جوڑنے کے مراکز تاکہ مدد محتاجی نہ بنے، خود داری بن جائے۔
چھٹا اصول تعلیم اور صحت کے ‘‘قریب ترین معیاری انتخاب’’ کا ہے۔ جنوبی پنجاب میں ایک معیاری ٹیچنگ ہسپتال فی ڈویژن، کینسر اور کارڈیک کیلئے سیٹلائٹ یونٹس، اور تحصیل سطح پر ایمرجنسی کی مکمل سہولت کے بغیر ‘‘زندگی کی برابری’’ ممکن نہیں۔ اسی طرح ہائر ایجوکیشن کے لیے ملتان،بہاولپور، ڈیرہ غازی خان میں ریسرچ اور ٹیکنالوجی پارکس،زراعت، واٹر مینجمنٹ، ڈیجیٹل سکلز، سٹارٹ اپ انکیوبیشن تاکہ نوجوان اپنے شہر میں خواب بْنے اور وہیں حقیقت میں ڈھالیں۔ استاد کی حاضری اور میرٹ پر بھرتی کے لیے بائیو میٹرک شفاف نظام، والدین کی شمولیت کے لیے سکول کونسلز، اور ‘‘ہر ہائی سکول ایک اسکل’’ پروگرام، جس میں بچوں کو آٹھویں کے بعد ایک عملی ہنر سکھایا جائے یہی وہ راستے ہیں جو ہجرت کی قطاریں چھوٹی کریں گے
۔
ساتواں اصول پانی اور زمین کی صحت ہے۔ جنوبی پنجاب کی رگوں میں نہروں کا پانی دوڑتا ہے؛ مگر جبانی منصوبہ بندی کے بغیر ٹیوب ویل کی کثرت، سیم و تھور، موسمیاتی شدت اور غیر معیاری بیج زمین کی سانس روک دیتے ہیں۔ یہ خطہ صرف فصل نہیں اگاتا، یہ ملک کی معاشی ریڑھ ہے۔ اسے ‘‘پالیسی’’ نہیں تحفظ چاہیے: گندم اور کپاس کے لیے منصفانہ کم از کم امدادی قیمتوں کا قبل از موسم اعلان، بروقت خرید، کاٹن کے بیج کی غیر معیاری فروخت پر آہنی گرفت، فصلِ ربیع و خریف کے لیے ان پٹ سبسڈی کی ٹارگٹڈ ڈلیوری، اور آبپاشی کیلئے لائنننگ و جدید سینسر بیسڈ واٹر ڈسٹری بیوشن۔ کسان کی مشین جب کھیت میں رکتی ہے تو شہر کا چولہا بجھنے لگتا ہے؛ اس حقیقت کو ‘‘سیاست’’ سے اوپر رکھنا ہوگا۔
آٹھواں اصول روزگار اور صنعت کاری کی متوازن بساط ہے۔ ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، وہاڑی، لودھراں، رحیم یار خان یہ سب محض زرعی اضلاع نہیں رہنے چاہئیں؛ یہاں فوڈ پروسیسنگ کلسٹرز، ٹیکسٹائل ویلیوز ایڈیشن یونٹس، پنجاب اسمال انڈسٹریل اسٹیٹس کی نئی زوننگ کے ساتھ ‘‘روزگار نزدیک’’ فلسفہ نافذ کیجیے۔ جب نوکری گھر کے قریب ہوگی تو ہجرت کے بس اسٹینڈ پر کمبوائنڈ ٹکٹ کم بکیں گے، اور خاندان کی سانس بحال ہوگی۔ چھوٹے کاروبار کے لیے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی جلد ادائیگی، خواتین کے کاروبار کے لیے زیرو کولیٹرل لون ونڈوز، اور ‘‘ایک ضلع ایک برانڈ’’ پالیسی سے نوجوان اپنے شہر کی پہچان دنیا کے بازار تک لے جا سکتے ہیں۔
نواں اصول فیصلہ سازی کی شراکت ہے۔ جنوبی پنجاب کے لوگ اپنی کہانی خود سنانا چاہتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ سٹیزن پارلیمنٹس قائم کیجیے اساتذہ، ڈاکٹرز، کسان، صنعت کار، طالب علم، صحافی، علماء ، خواتین نمائندگان ،ماہانہ اجلاس، پبلک ریکارڈ، ایجنڈا اور کارروائی اوپن۔ شکایت ازالہ کیلئے 24/7 ہیلپ لائن، واٹس ایپ چیٹ بوٹ، اور 15 دن میں تحریری جواب کی قانونی پابندی۔ جب شہری کو پتہ ہو کہ اس کی آواز دیوار نہیں، دروازہ کھولتی ہے تب وہ ریاست کو اپنا سمجھتا ہے۔
اور دسویں اصول امید ہے وہ امید جو صرف شعر میں نہیں، عمل میں نظر آئے۔ مریم بی بی، لوگ آپ سے ‘‘مہربانی’’ نہیں، ‘‘میثاق’’ چاہتے ہیں
ایک تحریری عہد نامہ:
1 ۔ملتان میں ہر محکمہ کے مستقل بااختیار سیکرٹریز کی تعیناتی اور دفتری عمل کی مکمل منتقلی۔ 2 ۔بہاولپور میں علاقائی سطح پر سپیشل سیکرٹری/ڈپٹی ایڈمنسٹریٹو ہیڈ کی بااختیار نشست، روزانہ کی شنوائی اور موقع پر احکامات۔ 3 ۔ترقیاتی بجٹ میں کم از کم 34فیصد جنوبی پنجاب کے لیے لازمی مختص، ضلع وار شفاف ڈیش بورڈ کے ساتھ۔ 4 ۔سیلاب سے متاثرہ یونین کونسلوں کیلئے خصوصی ڈویلپمنٹ بجٹ،جاریگی کی تاریخیں، ذمہ دار افسران اور عوامی مانیٹرنگ۔ 5 ۔صحت، تعلیم، پولیس، آبپاشی، تعمیرات،ہر محکمہ کی فیلڈ ڈلیوری کے لیے ماہانہ ‘‘جنوبی پنجاب پرفارمنس ریویو’’اوپن ٹاؤن ہال۔ 6۔کسان کیلئے ایم ایس پی پر فوری خریداری مراکز، کپاس کے بیج کی کوالٹی ریجیم، اور سیم و تھور کے علاج کے منصوبے۔ 7 ۔نوجوانوں کیلئے ٹیک و ہنر پارکس، لڑکیوں کے ہائی اسکولوں کی محفوظ ٹرانسپورٹ، اور ضلع وار سکل مشن۔ 8 ۔صنعتی کلسٹرز اور روزگار نزدیک پالیسی،فوڈ پروسیسنگ، فارما، ٹیکسٹائل ویلیو ایڈیشن،ٹیکس انسینٹو کے ساتھ۔ 9 ۔شہری شراکت کے ادارے،ڈسٹرکٹ سٹیزن پارلیمنٹس، 24/7 شکایت نظام، 15 دن میں جواب کی پابندی۔ 10 ۔ہر اعلان کے ساتھ ‘‘ڈلیوری کی تاریخ’’بدلتے کیلنڈر پر لکھی ہوئی، نہ کہ تقریر کی روشنائی میں چھپی ہوئی۔
یہ فہرست وعدوں کا پلندہ نہیں، یہ دلوں کے تالے کی کنجی ہے۔ لوگوں نے بڑے بڑے نعرے سنے ہیں؛ اب وہ تاریخ سننا چاہتے ہیں وہ تاریخ جو آپ لکھ سکتی ہیں۔ آپ چاہیں تو اپنے لیے آسان راستہ چن لیں چند افتتاح، چند کٹنگز، چند ہنگامی دورے؛ اور چاہیں تو مشکل مگر امر راستہ اختیار کریں،اختیارات بانٹ دیجیے، وسائل برابر تقسیم کر دیجیے، فیصلے قریب لے آئیے، جواب دہی عوام کے سامنے رکھ دیجیے۔ آسان راستہ تالیاں لاتا ہے، مشکل راستہ دعائیں۔ تالیاں لمحہ بھر کو گونجتی ہیں، دعائیں نسلوں تک سنبھالی جاتی ہیں۔
جنوبی پنجاب کے لوگ آپ سے نظریں ملائے کھڑے ہیں۔ مظفرگڑھ کے پل پر کھڑا بوڑھا کہتا ہے: ‘‘بی بی، میری بیٹی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے،کیا اسے میرے شہر میں اچھی تعلیم اور محفوظ ٹرانسپورٹ ملے گی؟’’ راجن پور کے کنارے پر بیٹھا نوجوان پوچھتا ہے: ‘‘کیا اس بار سیلاب کے بعد میری زمین کی بحالی کے لیے بجٹ واقعی آئے گا، اور وقت پر آئے گا؟’’ ڈیرہ غازی خان کی پہاڑی بستی سے آواز آتی ہے: ‘‘کیا اس بار ہماری سڑک کاغذ پر نہیں، پتھر پر بنے گی؟’’ بہاولپور کی ماں کہتی ہے: ‘‘کیا میرے بچے کا علاج میرے شہر میں ہو سکے گا، یا مجھے پھر لاہور کے چکر لگانے ہوں گے؟’’ ملتان کے استاد کی نظر میں ایک سوال ہے: ‘‘ کیا میرے سکول کے کمرے کی چھت اس بار بارش سے پہلے مرمت ہوگی؟’’ وہاڑی کے دستکار کی سسکی میں امید چھپی ہے: ‘‘کیا میری ہنر مند بیٹی کو زیرو کولیٹرل قرض مل سکتا ہے تاکہ وہ اپنا چھوٹا سا یونٹ لگا سکے؟’’ رحیم یار خان کا کاشتکار کہتا ہے: ‘‘کیا کپاس کے بیج کی دو نمبری پر واقعی ہاتھ ڈالا جائے گا؟’’ یہ سوال امتحان نہیں، راستہ دکھانے والے چراغ ہیں۔ ان چراغوں کو ہوا نہیں، ہاتھ چاہیے،ریاست کا ہاتھ، آپ کا ہاتھ۔
مریم بی بی ، لیڈر وہ ہوتا ہے جو اختیار قریب لاتا ہے اور عزت دور نہیں جانے دیتا ۔ آپ اگر آج ملتان کو جنوبی پنجاب کی فیصلہ ساز دھڑکن بنا دیں ، بہاولپور کو باعمل معاون مرکز دے دیں، 34فیصد بجٹ کی لائن پر عملدرآمد شروع کر دیں، اور سیلاب زدہ علاقوں کے لیے علیحدہ ڈویلپمنٹ بجٹ کے اجراء کی تاریخیں دے دیں تو یہ خطہ آپ کے راستے میں صرف پھول نہیں، دل بچھا دے گا۔ پھر ‘‘تختِ لاہور’’ کا لفظ تاریخ کی زبان میں بدل کر ‘‘سایہ پنجاب’’ بن جائے گا، جہاں سایہ سب پر یکساں پڑتا ہے، جہاں کوئی سوتیلا نہیں رہتا۔
یہ تحریر کوئی یادداشت نہیں ، ایک عہد نامہ ہے جنوبی پنجاب کے لوگوں کی آواز، ان کے آنسو، ان کے قصے، ان کی تھکی ہوئی راتیں اور ان کی جاگتی ہوئی امیدیں ۔ وہ امیدیں جو ہجوم سے نہیں، فیصلے سے بندھتی ہیں وہ فیصلے جو تقریر سے نہیں، فائل سے نکلتے ہیں وہ فائلیں جو لاہور سے نہیں، ملتان اور بہاولپور کے دفاتر سے چلیں گی وہ دفاتر جن کے باہر قطار میں کھڑے لوگ اپنے حق کے ساتھ گھر لوٹیں گے؛ وہ گھر جہاں چولہا عزت سے جلے گا وہ عزت جو ریاست دیتی ہے، اور جس کے بدلے ریاست کو وہی ملتا ہے جو سب سے قیمتی ہے دل۔
آخر میں، ایک سادہ سا سوال، اور ایک سیدھا سا وعدہ۔ سوال یہ کہ: کیا ہم برابری چاہتے ہیں یا برتری؟ اگر برابری چاہتے ہیں تو راستہ سامنے ہے،اختیار قریب، بجٹ عادلانہ، فیصلہ موقع پر، جواب دہی عوام کے سامنے۔ اور وعدہ یہ کہ اگر آپ نے یہ راستہ چن لیا تو جنوبی پنجاب آپ کے ساتھ ایسی محبت کرے گا جسے کوئی سیاسی موسمیاتی تبدیلی نہیں پگھلا سکے گی ۔ یہ محبت ووٹ کی پرچی سے بڑی ہے،یہ دعا ہے۔ اور دعا جب دلوں سے اٹھتی ہے تو آسمان سے راستے کھلتے ہیں۔
مریم نواز، یہ موقع دوبارہ نہیں آئے گا۔ آج تاریخ آپ کی دہلیز پر بیٹھی ہے، جنوبی پنجاب کی مائیں اس کے ساتھ بیٹھی ہیں، کسان کے ہاتھ کی لکیریں اس کی گود میں ہیں، نوجوان کی آنکھ کا خواب اس کی پلکوں پر رکھاہے۔ دروازہ کھول دیجیے،اختیار اندر لایئے، انصاف اندر بٹھایئے، امید کو اندر رہنے دیجیے۔ پھر دیکھئے گا، لاہور کی چمک جنوبی پنجاب کے دیہات تک کیسے پھیلتی ہے اور جب روشنی سب کے گھر پہنچے گی تو پنجاب ایک کہانی نہیں، ایک خاندان لگے گا اور خاندان میں کوئی سوتیلا نہیں ہوتا۔