ریاست اگر ماں ہے، تو یہ بچے کیوں روتے ہیں؟
تحریر ۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری
کہتے ہیں ریاست ماں ہوتی ہے۔ مگر جب ماں کے آنگن میں بھوک کے سائے پھیل جائیں، جب اس کے بچے ننگے پاؤں بارش میں روٹی کی آس لگائے کھڑے ہوں، اور جب در و دیوار چیخ اٹھیں کہ یہاں انصاف نہیں، تو پھر سوال اٹھتا ہے کیا واقعی یہ ماں ہے، یا کسی کا اجڑا ہوا گھر؟
عالمی بینک کی تازہ رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی شرحِ نمو محض2.3 فیصد تک سمٹ گئی ہے، جب کہ مہنگائی کی شرح آٹھ فیصد سے تجاوز کرنے کی پیش گوئی ہے۔ عالمی سطح پر شرحِ سود میں اضافہ، درآمدی اخراجات کی بڑھتی لہر، اور اندرونی مالی بدانتظامی نے عام پاکستانی کی سانس تک گروی رکھ لی ہے۔ جو دن کو مزدوری کرتا ہے، وہ شام کو خود سے سوال کرتا ہے کہ ‘‘کیا کل بھی مزدوری ملے گی؟معیشت کے کاغذی خاکے خوشحالی دکھاتے ہیں، مگر حقیقت میں چولہوں کی راکھ میں سردی بڑھ رہی ہے۔
فیض نے کہا تھا:
یہ داغ داغ اْجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں!
یہ سحر نہیں، یہ دھواں ہے۔ وہ دھواں جو جلتی ہوئی امیدوں کا ہے وہ دھواں جو ان گھروں سے اٹھتا ہے جہاں تنخواہ ختم ہو جاتی ہے مگر مہینہ باقی رہ جاتا ہے۔پاکستان کے دیہی علاقے اب صرف پسماندگی نہیں، تباہی کا نقشہ بن چکے ہیں۔ حالیہ سیلاب نے ایک کروڑ سے زائد افراد کو بے گھر کیا، ہزاروں ایکڑ کھیت بہہ گئے، اور کروڑوں خواب پانی میں ڈوب گئے۔ جن کے بچے سکول جاتے تھے، وہ اب خیموں میں روٹی کے ٹکڑے ڈھونڈتے ہیں۔ ریاست کہتی ہے کہ بحالی کا عمل جاری ہے، مگر ان خیموں میں رہنے والے کہتے ہیں بارش بند ہو گئی، مگر آنسو نہیں رکے۔
دیکھا جائے تو یہ ملک اب دو دنیاؤں میں بٹ گیا ہے ایک وہ جہاں شیشے کے دروازوں کے پیچھے ایئرکنڈیشنڈ میٹنگز میں پالیسیوں کے فیصلے ہوتے ہیں،اور دوسرا وہ جہاں لوگ دھوپ میں اپنی روزی کے فیصلے کرتے ہیں۔یہ دو پاکستان نہیں، ایک ہی پاکستان ہے مگر اس کے دھڑکنیں الگ الگ ہیں۔محسن نقوی، محنت کش طبقے کی بات کرتے ہیں، لیکن زمینی حقائق چیخ رہے ہیں کہ غریب کے لیے بجلی، آٹا، دوا سب خواب بن چکے ہیں۔
ادھر عالمی بینک کہتا ہے کہ ترقی سست ہو گئی ہے،ادھر عوام کہتی ہے کہ زندگی رک گئی ہے۔اب سوال یہ نہیں کہ شرحِ نمو کتنی ہے، سوال یہ ہے کہ شرحِ غم کہاں جا پہنچی ہے؟کیا کسی نے غور کیا کہ وہ کسان، جو کبھی فصل کا بادشاہ تھا، اب خود بھوک سے مر رہا ہے؟کیا کسی نے سوچا کہ وہ مزدور جو سڑکیں بناتا ہے، خود کے سر پر چھت نہیں رکھ سکتا؟کیا کسی نے سنا ان عورتوں کی آہ جو مہنگائی کے طوفان میں اپنی عزت تک بیچنے پر مجبور ہیں؟ریاست اگر ماں ہے، تو یہ سب اس کے بچے ہیں۔ مگر ماں کہاں ہے؟
جون ایلیا کا شعر یاد آتا ہے:
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
یہی حال ریاست کا ہے اب اس کی صورت صرف بجٹ کے دنوں میں یاد آتی ہے،جب ماں کے لہجے میں نہیں، وزیر کے لہجے میں فیصلے ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ حکومت کے پاس وسائل نہیں،مگر اقتدار کے ایوانوں میں دیکھیں تو پروٹوکول اب بھی پورا ہے جہاز اب بھی اڑ رہے ہیں،سرکاری رہائش گاہوں کے بجٹ اب بھی بڑھ رہے ہیں،اور وزیروں کے قافلے اب بھی عوامی سڑکوں پر عوام کو دھکیل کر گزرتے ہیں۔تو پھر مسئلہ وسائل کا نہیں، نیت کا ہے۔
اقبال نے کہا تھا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ!
لیکن یہاں ہر فرد اپنے مقدر کا دشمن بن گیا ہے حکمران اپنے اقتدار کے لیے لڑ رہا ہے،تاجر اپنے منافع کے لیے،اور عام آدمی صرف اپنی زندگی کے لیے۔یہ قوم بکھر گئی ہے جیسے ہوا میں اڑتے کاغذ، جن پر کبھی کسی نے نام لکھا تھا’’پاکستان‘‘۔جب سیلاب آتا ہے تو امداد آتی ہے،
مگر جب غریبی آتی ہے، تو خاموشی آتی ہے۔سیلاب کا پانی خشک ہو جاتا ہے،مگر بھوک کا طوفان نہیں رکتا۔یہ طوفان کسی دریا سے نہیں، کسی حکومتی بے حسی سے اٹھتا ہے۔
ریاست اگر ماں ہے، تو ماں کے قدموں کے نیچے جنت کہاں گئی؟وہ ماں جو اپنے بچوں کے زخم پہ مرہم رکھتی ہے،یہ ماں تو اپنے بچوں کے زخموں پر ٹیکس لگا رہی ہے۔جس ملک میں روٹی کھانے والا ٹیکس دیتا ہے،اور روٹی کھلانے والا چھوٹ لے لیتا ہے وہاں انصاف نہیں، وہاں تقسیم ہے۔ہماری پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں نعرے بلند ہوتے ہیں،مگر کسی غریب کے گھر سے نکلنے والی سسکیاں ان دیواروں تک نہیں پہنچتیں۔ایک وقت تھا جب لیڈر عوام سے آنکھ ملا کر بات کرتے تھے،آج وہ ٹیلی پرامپٹر سے پڑھتے ہیں۔لفظ خوبصورت ہیں، مگر حقیقت خالی۔ریاست کا باپ کہاں ہے؟کیا کوئی مردِ میدان باقی نہیں جو اپنے مفاد کی قربانی دے کر قوم کو زندہ کرے؟
حبیب جالب نے جیسے ہمارے آج کو پہلے ہی بیان کر دیا تھا:
ایسے دستور کو، صبحِ بینور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
ہم نے انقلابیوں کے خواب کو نعرہ بنا دیا،اور نعرہ کو بھیک،ہم نے قربانی کو یاد تو رکھا، مگر صرف عید تک،اب قربانی صرف غریب دیتا ہے اپنی عزت، اپنی روٹی، اپنی نیند۔کیا ہم یہ مان لیں کہ ریاست اب ماں نہیں رہی؟یا پھر ماں بیمار ہے، اور اس کے بچے خود غافل ہیں؟اب بھی وقت ہے اگر کوئی باپ بننے کی ہمت کرے،کوئی حکمران جو ذاتی آسائش چھوڑ کر قوم کے دکھ میں شریک ہو۔کوئی ایسا لیڈر جو بجٹ نہیں، دل کھولے۔کوئی ایسا انسان جو اقتدار نہیں، کردار دکھائے۔ریاست ماں بن سکتی ہے اگر وہ سن لے ان بچوں کی روتی ہوئی راتوں کو۔اگر وہ دیکھے ان مزدوروں کے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا ہوا نصیب۔اگر وہ سمجھے کہ ترقی سڑکوں سے نہیں، انسانوں سے ہوتی ہے۔اگر وہ مان لے کہ اقتدار امانت ہے، حق نہیں۔
احمد فراز کے لہجے میں دل کہتا ہے:
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جیسے خوشبو سے ہوا، جیسے پرچم سے وطن
یہ قوم خواب بن گئی ہے،اور خواب صرف تب ٹوٹتا ہے جب آنکھ کھلتی ہے وقت آ گیا ہے کہ ہم جاگ جائیں ریاست اگر ماں ہے، تو وہ اپنی ممتا کو یاد کرے اور اگر کوئی باپ ہے، تو وہ اب آگے بڑھے کیونکہ بچے اب اور نہیں رو سکتے۔