کالمز

آفریدی اور وفاقی حکومت کی ناکام سازش۔

تحریر۔۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل

رائج الوقت موضوع تو افغان مسئلہ ہے اور بلاشبہ سب سے بڑا معاملہ ان دنوں یہی ہے لیکن بیچ میں کچھ اور معاملات کی خبر بھی آ جاتی ہے اور لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے والا معاملہ ہو جاتا ہے تو اس طرح کا معاملہ پنجاب میں جرائم کے اضافے کی رفتار کا ہے اور یہ ایسی رفتار ہے کہ بلٹ ٹرین بھی شرما جائے، کچھ ناقابل یقین، کچھ مزید ناقابل یقین اور کچھ اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین اعداد و شمار۔ ایسی برق آسا رفتار سے جرائم بڑھ رہے ہیں کہ لگتا ہے قیامت آنے والی ہے اور یہ بھی لگتا ہے کہ قیامت بس پنجاب میں آئے گی اور کہیں نہیں۔

دیگر جرائم پر بات کرنے کی ہمت نہیں لیکن پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق سیل نے بڑی محنت سے ایک رپورٹ صرف بچوں کے خلاف جرائم کی تیار کی ہے۔ ان میں بچوں کے قتل کے واقعات شامل نہیں، صرف ان پر تشدد، اغوا، جنسی زیادتی اور چائلڈ لیبر سے متعلق جرائم شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ 5 برسوں میں محض جتنی نوعیت کے 5398 واقعات ہوئے جو ان جرائم میں 220 فیصد اضافہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
گزشتہ سال 2024 ء کا پنجاب کیلئے خاص طور پر سنگین رہا۔

اس سال بچوں کیخلاف صرف پنجاب میں 6083 جرائم ہوئے جبکہ سندھ میں ان واقعات کی تعداد 354 رہی۔ پنجاب کی آبادی سندھ سے دوگنی ہے۔ یہاں سات سو جرائم ہوئے تو کہا جا سکتا تھا کہ پنجاب اور سندھ میں جرائم کی شرح برابر برابر ہے لیکن یہاں تو تعداد چھ ہزار سے بھی بڑھ گئی۔ سادہ الفاظ میں پنجاب میں سندھ کے مقابلے میں دس گنا زیادہ جرائم ہوتے ہیں۔
سماجی بہبود کے اداروں کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے۔ حکومتیں زیادہ اہم کاموں میں مصروف رہتی ہیں، جرائم، بدامنی، مہنگائی ، کرپشن جیسے معمولی معاملات میں انہیں الجھانے کی کوشش کرنا ٹھیک نہیں۔

پنجاب میں ان دنوں "کنون” نافذ کرنے والا ایک نیا محکمہ قائم ہوا ہے۔ واضح رہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ہوتے ہیں ’’کنون‘‘ نافذ کرنے والا محکمہ اور__ تو یہ محکمہ ان دنوں پولیس سے مل کر کامیاب کارروائیاں کر رہا ہے۔ مثلاً ایک ریہڑی والا ادھر سے پکڑا، ایک چھابڑی والا وہاں سے، ایک سائیکل سوار راہگیر کو بھی دھر لیا۔ پھر تینوں کو کہیں لے گئے، پھر شوٹ آئوٹ ہوا اور پھر یہ خبر آ گئی کہ پنجاب کے تین خوفناک انڈر ورلڈ مافیا ڈان ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک، خس کم جہاں پاک
ادھر راہگیروں کے نیفوں میں پستول چلنے کے واقعات کی رسم بھی ادا ہو گئی۔ آئے روز میلی کچیلی شلواروں میں نیفے میں چھپے پستول چل رہے ہیں، داد مل رہی ہے، انعام بٹ رہے ہیں۔

کسی نے پوچھا، پجارو، لینڈ کروزروں والوں کے نیفے میں پستول کیوں نہیں چلتے، کسی دوسرے نے جواب دیا، ان کے پاس پستول ہوتے ہی نہیں، ان کے پاس اے کے رائفلیں، خودکار بھاری ہتھیار بلکہ مارٹر گنیں ہوتی ہیں اور یہ ہتھیار نیفے میں آ ہی نہیں سکتے، چلیں گے کیسے۔ پھر یہ کہ ہتھیار دراصل یہ خود تو رکھتے ہی نہیں، ان کے رکھے گئے دس دس بارہ بارہ سکیورٹی گارڈوں کے پاس ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ چلتے ہیں۔ ’’کنون‘‘ نافذ کرنے والے محکمے اور پولیس کے لوگ ان کو دیکھتے ہی ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر رکوع میں چلے جاتے ہیں، پھر سجدے میں گر جاتے ہیں، ہتھیار کو چلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ علاوہ ازیں نیوٹن کا گیارہواں قانون بھی ذہن میں رہے۔ یہ قانون بتاتا ہے کہ نیفے میں پستول صرف میلی کچیلی شلواروں ہی میں چلا کرتا ہے۔
بہرحال پنجاب پولیس اور کنون نافذ کرنے والے محکموں کے ہر دو سربراہان سے گزارش ہے کہ مارا ماری کا موسم ہے، لگے ہاتھوں کسی سچ مچ کے مجرم کو بھی، میرا مطلب ہے، اِدھر اْدھر لے جا کر ، کسی شوٹ آئوٹ وغیرہ__ میرا مطلب ہے، دراصل میں کہنا چاہتا ہوں کہ جو گزارش ابھی ابھی میں نے کی ہے، اسے کالعدم سمجھ کر نظرانداز کر دیا جائے اور جان کی امان دی جائے۔ ایک حتمی گزارش اور بھی ہے۔ یہ کہ فرصت ملے تو اخبار میں کچے کے ڈاکوئوں کے بارے میں کوئی خبر، کبھی کبھار، پڑھ لیا کریں۔

پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق سیل کو چاہیے کہ پنجاب میں چائلڈ لیبر کی شرح کے بارے میں جو شاید دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، رپورٹ تیار کرے۔ کتنے بچے ہر روز گھریلو ملازم کے طور پر مالکان کے ہاتھوں مار دیئے جاتے ہیں، کتنے بچے اغوا کے بعد قتل کر دئیے جاتے ہی اور پھر اس پر بھی رپورٹ ہو کہ آخر کیا وجہ ہے، کسی بھی قاتل کو سزا کیوں نہیں ملتی، بجائے سزا کے ترنت ضمانت کیوں مل جاتی ہے۔ کیا یہ بھی ہمارے ’’کلچرل ھیری ٹیج‘‘ کا کوئی گراں قدر حصہ ہے؟

وفاقی حکومت نے کے پی کے نومنتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو شاید بھولے ناتھ سمجھ لیا تھا لیکن وہ تو بڑے چالاکو نکلے، وفاقی حکومت کی ایک خطرناک چال کتنی آسانی سے ناکام بنا ڈالی۔

وفاقی حکومت نے ایک سازش کے تحت کے پی پولیس کو بلٹ پروف گاڑیاں بھجوا دیں۔ وفاقی حکومت کا مقصد یہ تھا کہ کے پی کی غیر محفوظ اور تقریباً نہتی پولیس جو شام کے بعد ڈر کے مارے تھانوں کے اندر قید ہو جاتی ہے، ان بلٹ پروف گاڑیوں کی وجہ سے اعتماد پائے گی اور باہر نکل کر مجرموں کا مقابلہ کرے گی۔ چالاکو آفریدی چال سمجھ گئے اور جان گئے کہ یہ ہمارے ’’معصوم‘‘ ٹی ٹی پی والے قیمتی اثاثے کے خلاف سازش ہے۔ ظاہر ہے بلٹ پروف پولیس کا سامنا ہو گا، دوطرفہ فائرنگ ہو گی، دو چار آٹھ دس معصوم ٹی ٹی پی والے مارے جائیں گے یعنی کہ ناحق خون پروانوں کا ہو گا__ چنانچہ انہوں نے یہ گاڑیاں وفاقی حکومت کو واپس کر دیں۔ یوں اب معصوم ٹی ٹی پی والے خطرے سے بچ نکلے، بے خطر ہو گئے۔

مزید دکھائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑہیں
Close
Back to top button