کالمز

یوں کیوں نہ ہوتا بھائی؟

تحریر ۔۔۔۔عبداللہ طارق سہیل

تاریخ کا ایک فلسفہ ابن خلدون نے لکھا ، پڑھے لکھوں کیلئے اور ایک فلسفہ نائن بی نے لکھا، وہ بھی پڑھے لکھوں کیلئے’’ لمبے چوڑے فلسفے، عدالتوں کے تفصیلی فیصلوں سے بھی لمبے چوڑے‘‘ اور تاریخ کا ایک فلسفہ لیو ٹالسٹائی نے اور ازاں بعد کامیو نے دیا، مجھ جیسے بہت سے ناخواندوں کیلئے، ایک سطر میں بیان ہو جائے، عدالتوں کے شارٹ آرڈر کی طرح یہ کہ ایسا مت کہو کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا اور یوں نہ ہوتا تو کیا ہوتا اس لئے کہ جو ہوا ہے وہ ہونا ہی تھا، کیوں نہ ہوتا، اسے تو ہو کر رہنا تھا اور جو نہیں ہوا وہ اس لئے نہیں ہوا کہ اسے ہونا ہی نہیں تھا، اس کا ہونا لکھا ہی نہیں تھا اور یہ کہ فرد سرنگ کا مسافر ہے۔ مسافر نے کہاں جانا ہے یہ فیصلہ مسافر نے نہیں، سرنگ نے کرنا ہے، جدھر لے جائے گی مسافر وہیں جائے گا اور سرنگ میں واپسی کیلئے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ مقتول کیوں قتل ہوا، اس لئے ہوا کہ اس نے قتل ہونا ہی تھا، قاتل نے کیوں قتل کیا، اس لئے کہ اس نے قتل کرنا ہی تھا۔
یہ آسان فلسفہ سمجھ میں آ گیا، ماننے میں نہیں آتا۔ بہرحال، 8 مسلمان ممالک نے ٹرمپ کے ساتھ مل کر غزہ اور فلسطین کا مسئلہ لپیٹ کر رکھ دیا ہے تو اس لئے رکھ دیا ہے کہ یہ مسئلہ لپیٹ کر رکھا ہی جانا تھا، یہ مسئلہ حل ہونے میں اس لئے نہیں آ رہا کہ یہ حل ہونا ہی نہیں تھا۔ غزہ والے اپنی سابقہ خودمختاری سے محروم کر کے ٹرمپ اور بش کے مشترکہ پوڈل کی ’’مستقل‘‘ غلامی میں اس لئے دے دئیے گئے کہ خودمختاری کا کوٹہ وہ پورا کر چکے تھے۔
ٹرمپ اور 8 اسلامی ممالک کو فلسطین کی ریاست قبول کرنا مشکل تھا چنانچہ 20 نکاتی پلان میں فلسطین کی ریاست بنائے جانے یا بننے کے امکانات کو تالہ بند کر کے تالے میں الفی ڈال دی گئی۔
مطلب یہ تو ہونا ہی تھا، کیسے نہ ہوتا ، جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا۔
_____
غزہ والوں کو البتہ ایک فائدہ ہونے کی توقع ہے۔ امکان ہے کہ معاہدہ طے پا جانے کے بعد ان کا روزانہ کا قتل عام اگر بند نہیں تو کم ضرور ہو جائے گا۔ یعنی ہر روز سو ڈیڑھ سو نہیں، 25 ،30 فلسطینیوں کے قتل پر اکتفا کیا جائے گا۔ غلامی ہی سہی، جان بچنے کی صورت تو پیدا ہوئی۔
معاہدے کے تحت غزہ والوں کو خوراک پہنچائی جائے گی اور وہ اب پہلے کی طرح بھوکے نہیں مریں گے لیکن یہ معاملہ بھی طے نہیں ہے، مشروط ہے۔ خوراک پہنچانے کا اکیلا راستہ مصر ہے۔ کیا مصر غزہ والوں کو دانہ پانی پہنچانے کی اجازت دے گا؟۔ مشکل ہے۔ ہر روز دو سو ٹرک خوراک سے بھرے ہوئے مصر پہنچتے ہیں، غزہ والوں کیلئے ، مصر دو چار ہی کو اجازت دیتا ہے، باقیوں کو روک لیتا ہے۔ دیکھئے، شاید مصر بھی کچھ لچک پیدا کرے، دو چار کے بجائے آٹھ دس ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دے دیا کرے۔
_____
فلسطین کو ریاست بنانے کے خلاف جو ملک زیادہ پرجوش ہیں، اخباری اطلاعات کے مطابق وہ ترکی اور قطر ہیں۔ ترکی اور اسرائیل میں آجکل شام کے مسئلے پر ذرا سی شکر رنجی پیدا ہو گئی ہے لیکن پرانی محبتیں اس طرح سے ختم نہیں ہوا کرتیں۔ اسرائیل مخالفانہ عالمی رائے عامہ کے محاصرے میں ہے۔ ایسا محاصرہ اسرائیل کا ماضی میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا، -8 اسلامی ممالک اسے محاصرے سے نکالنے میں کامیاب رہے ہیں اور سب سے زیادہ خوش رپورٹوں کے مطابق ترکی اور قطر ہیں۔
قطر— ’’گولیاں‘‘ کھا کے بے مزہ نہ ہوا
_____
اس معاہدے کو پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا ہے۔ یہ بجائے خود حیرت انگیز خبر ہے۔
غزہ پر یکطرفہ بمباری اور قتل عام کو شروع ہوئے دو سال سے اوپر گزر گئے، پی ٹی آئی نے قتل عام کے خلاف اور غزہ والوں کے حق میں کبھی کوئی بیان نہیں دیا، کوئی جلسہ نہیں کیا، کوئی ریلی نہیں نکالی، کوئی ٹویٹ تک نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کے ’’مرشد‘‘ اڈیالہ جیل سے ہر ہفتے اور کبھی ہفتے میں دو بار باقاعدگی سے ٹویٹ جاری کرتے ہیں، انہوں نے کبھی ایک لفظ بھی فلسطین کے بارے میں نہیں لکھا۔ پاکستان کی ہر سیاسی غیر سیاسی جماعت نے ردعمل دیا، جلوس نکالے، بیان دئیے، پی ٹی آئی یوں غیر متعلق رہی جیسے اس کی دنیا میں غزہ یا فلسطین کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
اب یکایک اس کے دل میں غزہ کی ہمدردی جاگ گئی، یہ کیا راز ہے؟۔ بالکل آسان راز ہے بھائی۔ جنگ بندی معاہدے کے معاملے میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پی ٹی آئی معاہدے کو نہیں، پاکستان کو کوس رہی ہے۔ 8 ملکوں میں پاکستان نہ ہوتا تو پی ٹی آئی کی خاموشی بدستور برقرار رہتی، ارتعاش آیا تو اس لئے آیا کہ معاملے میں پاکستان بھی شامل ہے۔
_____
کے پی کے وزیر اعلیٰ گنڈاپور نے مرشد کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خاں پر الزام لگایا کہ وہ خفیہ ادارے ملٹری انٹیلی جنس کی ایجنٹ ہیں۔
یہ پارٹی کی دن بدن پھیلتی ہوئی خانہ جنگی کا ایک اور باب ہے، کسی اور کو مداخلت کرنے کی کیا ضرورت لیکن ایک بات دلچسپ ہے۔ یہ کہ علیمہ خاں اس الزام پر برہم ہوئیں’’ اور برہم تو ہوئیں لیکن تردید نہیں کی۔۔ یعنی کہ‘‘ مطلب یہ کہ معاملہ دلچسپ ہے۔
_____
کشمیر ایکشن کمیٹی کے پاس روپیہ بھی بے حساب ہے، لاٹھی بھی اور بندوق بھی۔ یعنی گولڈ اینڈ گن سے لیس۔ ڈنڈے کے زور پر وہ آزاد کشمیر میں ہڑتالیں کر رہی ہے ، راستے بند کر رہی ہے، پاکستان سے ملانے والے پوائنٹس بھی بلاک کر رہی ہے۔ اس کے مطالبات لوگوں کو سمجھ میں نہیں آ رہے۔ مطالبات نہیں، احکامات ہیں۔ بعض لوگ اسے بھارت کی پراکسی کہہ رہے ہیں۔ نہیں کہنا چاہیے۔ وہ محب وطن ہیں۔ کیا ہوا وہ پاکستانی پرچم جہاں دیکھتے ہیں اتار کر زمین پر پھینک دیتے ہیں، ہیں تو وہ محب وطن۔ کیا ہوا جو وہ پاکستانی فوجی کو دیکھتے ہی اس پر حملہ کر دیتے ہیں، ہیں تو وہ محب وطن ، کیا ہوا اگر وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج کشمیر خالی کر دے۔ ظاہر ہے اپنی فوج سے مطالبہ کر رہے ہیں، کوئی بھارتی فوج سے تھوڑا کر رہے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے نکل جائے۔ کیا ہوا وہ آزاد کشمیر کو پاکستان سے کاٹ دینا چاہیتے ہیں۔ ہیں تو وہ محب وطن۔ اچھے لوگ ہیں یقین نہیں آتا تو بھارتی میڈیا سے پوچھ لو یا پی ٹی آئی سے پوچھ لو۔

مزید دکھائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button