ماحولیات پر ٹرمپ کے’’خیالات عالیہ‘‘
تحریر۔۔۔۔نصرت جاوید
’’ہر مرض کی شفا‘‘ کا دعویٰ کرنے والے کشتہ فروشوں کو امریکی دھوکے باز پکارتے ہیں۔ منگل کے روز ’’ماحولیات‘‘ پر کام کرنے والے محققین کو بھی امریکی صدر نے ایسے ہی دھوکے بازوں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔ اس کی تقریر سننے کے بعد نہایت سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ کسے درست تسلیم کروں۔
بطور صحافی ساری زندگی رپورٹنگ کی نذر کردی۔ اس دھندے میں مصروف افراد محض ’’خبر‘‘ ڈھونڈنے کے جنونی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی اور شے پر غور کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ اتفاقاََ 1985سے ہمارے ہاں سیاست بھی ضرورت سے زیادہ پرجوش اور تخت یا تختہ والے دھڑوں میں بٹنا شروع ہوگئی۔ ساری توجہ اسی کی نظر ہوجاتی۔ 1980کی دہائی کے اختتام سے ذرا قبل مگر میری شادی ہوگئی۔ ہم دونوں سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے نوکری کو مجبور تھے اور میری بیوی کو پہلی نوکری پاکستان کو درپیش ماحولیاتی مسائل کی نشاندہی کی جامع رپورٹ تیار کرنے والے ایک ادارے میں ملی۔ نوکری کے چھ ماہ بعد سے وہ فرصت کے لمحات میں میرے ساتھ بیٹھ کر نہایت پریشانی سے اس خطرے کا اظہار کرتی کہ ہمارے گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس کی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔ زمینی درجہ حرارت کا بڑھ جانا۔ یہ بڑھتا رہا تو بالآخر سردیوں کا موسم قلیل سے قلیل تر ہوتا چلاجائے گا۔ گرمی اور سردی کے درمیان بہار کے موسم کے دنوں کی تعداد بھی محدود ہونا شروع ہوجائے گی۔ بتدریج ہم موسم گرما کے طویل مہینوں میں رہنا شروع ہوجائیں گے۔ گرمیوں میں حبس کے کافی دن گزرنے کے بعد اچانک بہت تیز بارشیں ہوں گی۔ ان کی وجہ سے فلیش فلڈ(Flash Flood)آئیں گے۔ مجھے بطور صحافی قارئین کو آنے والے مشکل دنوں سے آگاہ رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
میں اس کی بات غور سے سننے کے بعد نہایت دیانتداری سے اعتراف کرتا کہ مجھے ’’این جی اوز‘‘ کو پسند آنے والی صحافت کرنے کا شوق نہیں۔ میں ریاست اور حکومتی امور کے علاوہ بین الاقوامی مسائل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان کر لکھتے ہوئے ’’فیصلہ سازوں‘‘ کی توجہ چاہتا ہوں۔ جن ’’قیامتوں‘‘ کی وہ خبر دے رہی ہے شاید میری زندگی میں برپا نہ ہوں۔ میرے مرنے کے بعد جو ہوگا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔میں تو اس کے ہاتھ نہ آیا لیکن میری دونوں بچیاں ہوش سنبھالنے ہی سے اس کی ہم خیال ہوچکی ہیں۔ چلتی ہوئی گاڑی سے جلتا سگریٹ سڑک پر پھینک دیتا تو دونوں مل کر میری سرزنش کرتیں۔ ان کی نگاہ میں میرا سب سے بڑا گناہ چلتی گاڑی سے پلاسٹک کی بوتل خالی کرکے باہر پھینک دینا تھا۔
گزشتہ تین برسوں سے لیکن میں ان کے روبرو مذکورہ تناظرمیں شرمندہ محسوس کرتا ہوں۔ سگریٹ پینا چھوڑ دیا ہے۔ پلاسٹک کی بوتل کوڑے دان میں پھینکتا ہوں۔ مرنے سے پہلے ہی ’’کلائوڈ برسٹ‘‘ کے لفظ اور اس کی وجہ سے مچی تباہی سے آشنا ہوگیا ہوں۔ رواں برس تو راوی اور ستلج جنہیں ہم عرصہ ہوا بھارت کے سپرد کرنے کے بعد بھلاچکے تھے بھارت کے صوبہ ہماچل پردیش میں ہوئی ریکارڈ توڑ بارشوں کی وجہ سے بپھرکراپنا تاریخی راستہ تلاش کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے تو سینکڑوں دیہاتوں اور وہاں اگی فصلوں کو دریا برد کردیا۔ رواں برس کی غیر معمولی بارشوں اور بربادی پھیلاتے سیلاب نے مجھے یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ جن خدشات کا میری بیوی آج سے تقریباََ 3دہائیاں قبل اظہار کررہی تھی میرے مرنے سے قبل ہی ظہور پذیر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
امریکہ کا مگر صدر ٹرمپ ہے۔ ووٹوں کی وجہ سے دوسری مرتبہ چاربرس کے انتظار کے بعد منتخب ہوکر اس نے تاریخ بنائی ہے۔ وہ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کا صدر ہے۔ اس کے ملک میں کسی بھی موضوع کے لئے گہری تحقیق کے لئے ایسی یونیورسٹیاں ہیں جہاں آپ اس موضوع کے ہر ممکنہ پہلو کو دریافت کرنے کے لئے ساری زندگی رزق کمانے کی فکر میں مبتلا ہوئے بغیر گزارسکتے ہیں۔
’’ماحولیات‘‘ بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک سنجیدہ موضوع تسلیم ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منگل کے روز خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے مگر ’’ماحولیات‘‘ کے پورے دھندے کو Scam(فراڈ یا دھوکا) پکارا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان کی موجودگی میں حقارت سے یاد دلایا کہ چند برس قبل اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک تحقیق ہوئی تھی۔ اس کے مطابق ’’ماحولیات‘‘ کے ساتھ انسانی چھیڑ چھاڑ جاری رہی تو دنیا کے بیشتر ملکوں کا وجود ہی 2000 کے آغاز میں ختم ہوجائے گا۔یہ بیان کرنے کے بعد اس نے سٹیج ایکٹروں کی ٹائمنگ کے ساتھ اپنے بدن پر انگلی رکھتے ہوئے یاد دلایا کہ ’’ہم مگر زندہ ہیں‘‘۔
’’ماحولیات‘‘ کو فراڈ پکارنے کے بعد اس نے چین کو اس کی وجہ سے انسانی دلوں میں ابلتے خوف کو’’منافع خوری‘‘ کی خاطر استعمال کرنے کا بارہا مرتکب قرار دیا۔ ٹرمپ عموماََ حقائق پر انحصار کا عادی نہیں۔ تواتر سے اپنی تقریر میں البتہ دہراتا رہا کہ چین ویسے تو پوری دنیا کوسولرپینل بیچتا ہے لیکن اس کے ہاں اب بھی بجلی کی اکثریت کوئلہ جلانے سے پیدا کی جاتی ہے۔ اس طرح اس کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ چین کے کسی ایک شہر میں بھی ونڈ مل (Wind Mill)کے ذریعے بجلی پیدا نہیں ہوتی۔
میں بے چینی سے منتظر رہوں گا کہ چین کی جانب سے توانائی کی پیداوار کے لئے امریکی صدر ٹرمپ نے جو ’’اعدادوشمار‘‘ بتائے ہیں انہیں جھٹلانے کی کوشش ہو۔ مناسب جواب اگر نہ آیا تو میرے جیسے کئی سادہ لوح یہ سوچنے کو مجبور ہوں گے کہ شاید ’’چرب زبان‘‘ دانشوروں نے ’’ماحولیاتی مسائل‘‘ اختراع کئے ہیں۔ ان کا حقیقی وجود نہیں۔ دنیا کو تیل کی تلاش ٹرمپ کی خواہش کے مطابق جاری رکھنا چاہیے۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک تیل کہاں سے حاصل کریں؟ اگر قدرت نے انہیں شمسی توانائی سے نوازا ہے تو سولر پینلوں کی مدد سے گھروں کو روشن اور ٹھنڈا یا گرم رکھنے میں کیا حرج ہے؟ اس تناظر میں ٹرمپ کی تقریباََ ایک گھنٹہ لمبی تقریر یاد کی تو خیال آیا کہ موصوف کی دنیاامریکہ سے شروع ہوکر محض یورپ کے چند ممالک تک ختم ہوجاتی ہے۔ ’’غربت‘‘ کا اسے تجربہ نہیں۔ بنیادی طورپر ایک کاروباری آدمی ہے جو ہر شے کو طلب ورسد یا منافع کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ’’ماحولیات‘‘ ہی مگر واحد موضوع نہیں تھا جس کے بارے میں ٹرمپ کے خیالات نے مجھے چونکا دیا۔ اس کی تقریر چند مذہبی اور نسلی تعصبات پر بھی مشتمل تھی۔ اس نفرت کے خوں ریز اثرات ہوسکتے ہیں۔