فیلڈ مارشل، افواج پاکستان اور قوم کا مستقبل
تحریر۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری
یہ ملک کوئی عام قوم نہیں۔ یہ قوم اْن ہاتھوں کی پیدائش ہے جنہوں نے میدانوں میں خون بہایا، سرحدوں پر پہرہ دیا اور اندھیری راتوں میں امید کی مشعل جلائی۔ افواج پاکستان کی قربانیاں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جانی چاہئیں ۔نہ کہ انہیں گھٹیا تنقید اور مکروم سیاست کے ذریعے دبایا جائے ۔ آج جب فیلڈ مارشل عاصم منیر عالمی فورمز میں، ریاض کی میٹنگز میں، اور دوحہ کے ڈائیلاگز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں تو ہمیں اْن کا مثبت چہرہ دکھانا ہوگا — کیونکہ یہی چہرہ قومی بقا کی ضمانت ہے۔
ہم نے تاریخ دیکھی ہے، زخم بھی دیکھے ہیں، غلطیاں بھی تسلیم کی ہیں۔ مگر یہ ماننے میں کوئی کسر نہیں کہ جب بھی ملک کو ضرورت پڑی، ہماری افواج نے سب سے آگے قدم رکھا۔ 1977 کے بعد افغان جنگ ہو یا 9/11 کے بعد کی دہائی ۔جہاں ریاست کے دیگر ادارے کچھ نہ کر پائے، وہاں فوج نے محکم ارادے کے ساتھ ذمہ داریاں اٹھائیں؛ مہاجرین کی دیکھ بھال، غیر مستحکم سرحدیں سنبھالنا، دہشت گردی کے خلاف آپریشنز، اور اندرونی امن کے لیے سخت فیصلے۔ یہ سب کام آسان نہیں تھے۔ یہ سب کام قیمت کے ساتھ آئے ۔ جانوں، وسائل اور محنت کی قیمت۔ مگر اسی محنت نے ملک کو وہ خطہ دیا جو آج بھی بین الاقوامی گیم میں بولتا ہے۔ اسے تسلیم کرنا ہمارا قومی فرض ہے۔
ریاض کا دورہ، فیلڈ مارشل کا ساتھ، اور یہ عالمی ملاقاتیں محض نمائش نہیں۔ یہ اْن کوششوں کا تسلسل ہیں جو افواجِ پاکستان نے خطے میں استحکام کے لیے کیں۔ جب سفارت اور دفاع ایک پیج پر ہوں تو نتیجہ بہتر نکلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ وہی سبق ہے جو ہمیں ماضی میں سیکھنا تھا مگر بعض اوقات ہم نے ادراک میں دیر کی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے دیں۔ فوج اپنا کردار نبھائے، سول قیادت اپنی ذمہ داریاں سنبھالے، اور سیاستدان مخلص ہو کر سے قوم کے مفاد میں فیصلے کریں
۔
اسٹبلشمنٹ نے گزشتہ دہائیوں میں جو کردار ادا کیا، وہ یاد رکھنے سے بالا تر ہے۔ جب سرحدوں پر خطرہ ہو، تو افواجِ پاکستان باہر نکلتی ہیں۔ یہ محض جنگی قوت نہیں، بلکہ ایک قومی انسٹی ٹیوٹ ہے ۔ جس نے انفرااسٹرکچر کو سنبھالا، قدرتی آفات میں ریسکیو کا کام کیا، دہشت گردی کے خلاف جارحانہ اور دفاعی محاذ دونوں پر قوم کی حفاظت کی۔ اس ادارے کی مثبت فہرست لمبی ہے اور اس کا کریڈٹ عوام کے سامنے رکھنا چاہیے۔ ہم جب اس مثبت چہرے کو چھپاتے ہیں یا اس کا غیر منصفانہ موازنہ کرتے ہیں تو دراصل اپنی خودی کو کمزور کرتے ہیں۔
مگر انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس مثبت کردار کی منطقی تکمیل میں سیاستدانوں کی ذمہ داریاں واضح ہوں۔ فوج محاذ پر کھڑی رہتی ہے مگر معاشی، سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو مستحکم کرنا سول قیادت کا فرض ہے۔ جب بیرونی شراکت داری، جیسا کہ سعودی سرمایہ کاری یا قطر–امریکہ دفاعی تعلقات، سامنے آئیں تو ان فوائد کو عوام تک پہنچانے کی ضمانت سول حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہی معاہدے اْس وقت قابلِ تحسین ہوں گے جب اْن کے نتائج لاہوری، پشاور والے، کراچی والے اور دور دراز کے کسان دیکھیں گے — نئی روزگار کی لائنز، بہتر ہسپتال، سکول، اور اصلی معیشت کی رونق۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات بیرونی مواقع صرف بڑے بیانات بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ہماری کمزوری نہیں، یہ ہماری ذمہ داری کا امتحان ہے۔ فوج نے اپنی جانب سے وہی کریں جو قومی مفاد میں بہتر ہے؛ اب سول قیادت کو چاہیے کہ وہ شفاف منصوبہ بندی کرے، شراکت داری کی نگرانی کرے اور پورے پراجیکٹ کا فائدہ عوام تک پہنچانے کیلئے مستقل ورک پلان بنائے۔ یہی مشترکہ حکمتِ عملی ملک کو پائیدار ترقی دے سکتی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی مثبت شمولیت کا مطلب یہ نہیں کہ اْنہیں ہر گھڑی سیاسی معاملات میں دخل دینے کا حق حاصل ہو؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قوم کی بقا کی بات ہو، تو فوج اور سول ادارے مل کر منصوبہ بندی کریں۔ ایک دوسرے کا ساتھ دیں، نہ کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فوجی قیادت نے کبھی عوام کو حقیر نہیں سمجھا۔ اْن کی ترجیحات میں ملک کی سالمیت سب سے اوپر رہتی ہیں۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ یہ قوت کیسے قوم کی بہتری میں بدل دی جائے؟ اس کا جواب سیدھا ہے: شراکت داری، شفافیت اور ملک گیر منصوبہ بندی۔ ریاست کا وہ فقرہ جس میں افواج اور سول ادارے ایک دوسرے کو سپورٹ کریں، سب سے مضبوط صورت اختیار کرے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جب فوج عالمی فورمز پر پاکستانی مفاد اٹھائے تو سول لیڈر اس کی سفارتی معاونت کریں، جب فوج داخلی سلامتی سنبھالے تو سول قیادت معیشت اور عوامی بہبود کی بنیادیں مضبوط کرے۔
عوام کا حق ہے کہ وہ دیکھیں کہ فوج کی دی ہوئی قربانیاں عام آدمی کے فائدے میں تبدیل ہوں۔ عسکری شراکت کا پھل تبھی میٹھا ہوگا جب اس کے بدلے میں روزگار بڑھے، غربت میں کمی آئے، تعلیم کے دروازے کھلیں اور صحت کی سہولیات بہتر ہوں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو فوج اور قوم کے باہمی اعتماد کو مضبوط کریں گی۔ اس اعتماد کے بغیر کوئی معاہدہ پائیدار نہیں رہتا۔ اس کی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں جب عدالتی اور سیاسی اداروں نے مل کر مثبت نظام قائم کیا — ایسی کامیابیاں دوبارہ دہرائی جا سکتی ہیں بشرطیکہ ہم سبق سیکھیں۔
کبھی یہ نہ سوچیں کہ فوج کا مثبت کردار قوم کی سیاسی آزادی کے خلاف ہے۔ نہیں۔ اصل میں جب ریاست کے پاس ایک مضبوط دفاعی ادارہ ہو، تب ہی اس کے اندرونی ڈھانچے کا تحفظ ممکن ہوتا ہے۔ یہ ایک درد سر ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ مضبوط دفاعی ادارہ، مضبوط ریاست کا پہلا ستون ہے۔ مگر ستون مضبوط ہوگا تو خاندان کو، یعنی عوام کو، چھت بھی ملے گی جب سیاسی قیادت اپنے فرائض نبھائے گی۔ ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ جب سیاستدان ناکام ہوئے تو ریاستی اداروں کو بھاری ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں۔ اس بار سیاسی قیادت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھا سکتی ہے: شفاف پالیسی سازی، احتساب، اور عوام دوست فیصلے۔
ریاض سے جو امکانی معاہدے آئیں، انہیں ہم قومی مفاد کے مطابق تبدیل کریں۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ کوئی بھی معاہدہ اگر عوام تک براہِ راست فائدہ نہیں پہنچائے گا تو وہ سرکاری کامیابی نہیں، وہ محض ایک بین الاقوامی اعلان ہوگا۔ ہمیں سول اور عسکری قیادت کے مابین وہ معاہدہ چاہیے جس میں روزگار کی ضمانت، مقامی صنعتوں کی شمولیت، اور پراجیکٹس کی شفاف نگرانی ہو۔ یہ مطالبہ فوج کے مثبت کردار کی تائید میں ہے — کیونکہ فوج نے جو امن اور سکیورٹی کا ماحول پیدا کیا ہے، اس کا فائدہ عوام کو ملنا چاہیے۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قوم کا صبر لامحدود نہیں۔ عوام نے بارہا قربانیاں دیں، مگر وہ نتائج طلب کرتے ہیں۔ اس دورے کا مطلب تبھی کامیابی ہوگا جب گھر کے اندر تبدیلی محسوس ہو، جب بازار سستا ہو، جب روزگار بڑھے، جب بجلی اور گیس کے منصوبے مقامی لوگوں کو نوکریاں دیں، جب ہسپتالوں میں علاج ممکن ہو۔ یہ وہ پیمانہ ہے جس پر ہم اس دورے کو ناپیں گے۔ اور اگر سیاسی قیادت نے اس بار بھی مواقع ضائع کیے تو قوم سوال کرے گی ۔ مگر سوال فوج کے خلاف نہیں، سوال اْن لوگوں کے خلاف ہوگا جو وعدے کر کے عمل سے بھاگ گئے۔
اس لئے آج ہم یہ کہیں: اسٹبلشمنٹ کا مثبت چہرہ قوم کی بقا کا ضامن ہے۔ افواجِ پاکستان نے جو کچھ کیا، اس کی عظمت کا اعتراف ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ مگر اسی قدر لازمی ہے کہ سول قیادت بھی اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھائے۔ فوج کو سپورٹ کریں، مگر سپورٹ ایسے فیصلوں کی طرف جو عوامی مفاد میں ہوں۔ فوج کو عزت دیں، مگر اس عزت کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی نظام اس عزت کے بدلے قوم کو بہتر مستقبل دے۔ اس مابین مطابقت ہی ملک کا اصل مستقبل طے کرے گی۔
ہمیں سیاسی قیادت سے عاجزانہ مگر سخت گزارش کرنی چاہیے: آپ کے ہاتھ میں قوم کی تقدیر ہے، تم نے غلطی کی تو یہ موقع جانے کا درد عوام کو ہوگا۔ آپ نے درست راستہ اختیار کیا تو یہ ملک اگلی نسلوں کے لیے روشنی بن جائے گا۔ اور ہم عوام بھی اس راستے میں شامل ہوں گے۔احتساب اور شفافیت کا تقاضا کریں گے، مگر ساتھ ہی ہم اپنی افواج کی قربانی اور ملک کے دفاع کو سراہیں گے۔ یہی توازن قومی استحکام کا راز ہے۔
آخر میں میں ایک سیدھا، زور دار اور معنی خیز جملہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اس کالم کا خلاصہ ہے:
فیلڈ مارشل نے جو دروازے کھول دئیے، اْنہیں سول قیادت نے عوامی بہبود میں بدلنا ہے؛ اگر یہ مشترکہ جذبہ قائم رہا تو پاکستان زندہ رہے گا۔ورنہ نہ فوج کا عزم، نہ سیاست کا وعدہ، کچھ دیر بعد قابضِ زمانہ کی مانند بے معنی ہو جائے گا۔
اب وقت عمل کا ہے، وقت عکسِ عمل نہیں۔ ہم اسٹبلشمنٹ کو سپورٹ کریں گے، ہم سیاستدانوں سے معقول اور جرات مندانہ فیصلے مانگیں گے، اور ہم اپنی قوم کے حق میں ہر اس قدم کی حمایت کریں گے جو ہمیں تحلیل سے نکال کر تعمیر کی راہ پر ڈالے۔
یاد رکھیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا وقت نہیں ہے قوم بنانے اور مسلم امہ کا اعتماد حا صل کرنے اور اسے ملک کے عوام کے حق میں لانے کا وقت ہے
کاش ہم ایسا کر پائیں بہت مشکل مگر ممکن اور اہم ہے۔