کالمز

مفاہمت کی سیاست: راستہ دینا، راستہ لینا

تحریر۔۔۔۔۔۔محمد اکرم چوہدری
پاکستان کی سیاست ایک بار پھر ایسے موڑ پر کھڑی دکھائی دیتی ہے جہاں نظریات، دعوے اور جذبات اپنی جگہ، مگر حقیقت کا دباؤ سب سے زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور اسی تناظر میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ پارٹی قیادت نے تمام قومی اسمبلی کے اراکین، صوبائی اسمبلی کے اراکین اور سینیٹرز کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ تین دن کے اندر اندر پچاس ہزار روپے فی کس پارٹی فنڈ میں جمع کروائیں۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا انتظامی فیصلہ محسوس ہوتا ہے، مگر اگر اس کے پس منظر اور اس کے سیاسی و اخلاقی مضمرات کو دیکھا جائے تو یہ معاملہ محض چند ہزار روپوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ ہماری مجموعی سیاسی ثقافت، جماعتی نظم، اور ریاستی سمت پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ سیاست میں مالی مسائل کوئی نئی بات نہیں، دنیا کی بڑی سے بڑی جماعتیں بھی فنڈنگ کے مسائل سے گزرتی رہی ہیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاست کو ہمیشہ نظریات اور عوامی جذبات کے سہارے چلانے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہو، وہاں مالی بحران کا اس انداز میں سامنے آنا کئی بنیادی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ سیاسی خبروں کی مکمل تصدیق ہمیشہ ممکن نہیں ہوتی۔ اقتدار کی کشمکش، اسٹیبلشمنٹ اور سیاست کے باہمی تعلقات، اور میڈیا کی اپنی ترجیحات اکثر خبر کو تجزئیے اور تجزیے کو تاثر میں بدل دیتی ہیں۔ اس کے باوجود جب مختلف ذرائع ایک ہی سمت اشارہ کریں تو یہ محض افواہ نہیں رہتی بلکہ ایک سنجیدہ اشارہ بن جاتی ہے۔ تحریک انصاف کا مالی دباؤ دراصل اس حقیقت کی علامت ہے کہ سیاست اب محض نعرے لگانے یا سوشل میڈیا پر بیانیہ بنانے کا نام نہیں رہی، بلکہ یہ ایک مہنگا، منظم اور مسلسل عمل بن چکی ہے۔ دفاتر، قانونی ٹیمیں، میڈیا سیل، جلسے جلوس، کارکنوں کی دیکھ بھال، اور مسلسل عوامی رابطہ یہ سب وسائل مانگتے ہیں، اور جب کوئی جماعت اقتدار سے باہر ہو، اس کے فنڈنگ چینلز محدود ہو جائیں اور ریاستی دباؤ بھی موجود ہو تو مالی بحران ناگزیر ہو جاتا ہے۔
تحریک انصاف کی سیاست کا ایک بنیادی ستون ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ خود کو روایتی سیاست سے الگ، عوامی طاقت پر کھڑی جماعت قرار دیتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسی جماعت اپنے ہی منتخب نمائندوں سے براہ راست فنڈ اکٹھا کرنے پر مجبور نظر آئے تو یہ صرف مالی نہیں بلکہ فکری بحران کی علامت بھی بن جاتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ پچاس ہزار روپے زیادہ ہیں یا کم، سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاست اب اس مقام پر آ چکی ہے جہاں جماعتیں اپنی بقا کے لیے اندرونی طور پر بھی شدید دباؤ کا شکار ہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا اس کا حل مسلسل محاذ آرائی، ٹکراؤ اور ضد کی سیاست میں پوشیدہ ہے یا پھر مفاہمت، لچک اور مکالمے میں؟
اسی تناظر میں بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ سیاسی پیغام غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ بلاول کی جانب سے مفاہمت، سیاسی مکالمے اور ریاستی استحکام پر زور کو ہمارے ہاں حسبِ روایت مختلف زاویوں سے دیکھا گیا۔ کسی نے اسے کمزوری کہا، کسی نے اسے سیاسی چال قرار دیا، اور کسی نے اسے وقتی مصلحت۔ مگر اگر اس پیغام کو ذاتی یا جماعتی مفاد سے ہٹ کر ریاستی بقا کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک سنجیدہ اور بالغ نظر اپیل محسوس ہوتی ہے۔ پاکستان اس وقت جس معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام اور سفارتی دباؤ کا شکار ہے، اس میں مسلسل تصادم کی سیاست ریاست کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ مفاہمت کا مطلب یہ نہیں کہ اصولوں سے دستبردار ہو جایا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کو دشمنی میں بدلنے سے روکا جائے اور سیاست کو بند گلی سے نکال کر کسی کھلے راستے کی طرف لے جایا جائے۔
سیاست دراصل راستہ دینے اور راستہ لینے کا نام ہے۔ جو سیاست دان یا جماعت صرف راستہ لینے پر یقین رکھتی ہو اور کبھی راستہ دینے پر آمادہ نہ ہو، وہ بالآخر خود بھی دیوار سے ٹکرا جاتی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جن قوموں اور جماعتوں نے ضد، انا اور مکمل فتح کے خواب کو حقیقت سے زیادہ اہم سمجھا، وہ یا تو ٹوٹ گئیں یا پھر طویل عرصے کے لیے غیر متعلق ہو گئیں۔ اقبال نے اسی توازن کی اہمیت کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا تھا کہ نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو دونوں کا امتزاج ہی اصل کامیابی ہے۔ سیاست میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے، جہاں صرف گرمی ہو تو نظام جل جاتا ہے اور صرف نرمی ہو تو نظام بہہ جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مفاہمت کو اکثر این آر او، ڈیل یا پسپائی کے مترادف سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مفاہمت دراصل طاقت کے درست استعمال کا نام ہے۔ طاقت کا مطلب صرف ٹکراؤ نہیں بلکہ یہ جاننا بھی ہے کہ کہاں رکنا ہے، کہاں جھکنا ہے اور کہاں آگے بڑھنا ہے۔ بلاول بھٹو کا پیغام اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ پیغام کسی ایک جماعت کے لیے نہیں بلکہ مجموعی سیاسی نظام کے لیے ہے کہ اگر ہم نے ریاست کو بچانا ہے تو ہمیں اپنے سیاسی رویوں میں بالغ نظری لانا ہو گی۔
تحریک انصاف کے لیے یہ لمحہ محض مالی مشکلات کا نہیں بلکہ خود احتسابی کا بھی ہے۔ برسوں تک دو ٹوک مؤقف، سخت زبان اور مسلسل محاذ آرائی کو سیاسی حکمتِ عملی کے طور پر اپنایا گیا، مگر آج یہ سوال خود بخود پیدا ہوتا ہے کہ اس حکمتِ عملی نے کیا حاصل کیا اور کیا کھویا۔ عوامی حمایت اپنی جگہ ایک بڑی طاقت ہے، مگر جب یہ حمایت ادارہ جاتی سیاست میں ڈھل نہ سکے تو وہ آہستہ آہستہ جذباتی نعروں تک محدود ہو جاتی ہے۔ اگر آج پارٹی کو اپنے نمائندوں سے فنڈ مانگنا پڑ رہا ہے تو یہ اس بات کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے کہ محض جذباتی سیاست دیرپا نہیں ہوتی۔
مرزا غالب نے انسانی خواہشات اور انا کے انجام کو جس گہرے طنز کے ساتھ بیان کیا تھا، وہ سیاست پر بھی پوری طرح صادق آتا ہے۔ سیاست دانوں کی خواہشیں اقتدار، مقبولیت اور تاریخ میں نام کے گرد گھومتی ہیں، مگر جب یہ خواہشیں ریاستی مفاد سے ٹکرا جائیں تو نقصان صرف ایک فرد یا جماعت کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہوتا ہے۔ غالب کی یہی بصیرت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر خواہش کی قیمت ہوتی ہے اور ہر ضد کا انجام۔
میر تقی میر کی شاعری میں شکست، ٹوٹ پھوٹ اور اس کے بعد خود آگاہی کا جو درد ملتا ہے، وہ آج کی سیاست پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ بعض اوقات قیادت کو اپنی کمزوری کا احساس نہیں ہوتا، مگر عوام، نظام اور ریاست اس کے اثرات بھگت رہے ہوتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سیاست کو انا کے دائرے سے نکال کر عقل اور حکمت کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان کو اس وقت کسی ایک جماعت کی فتح یا کسی دوسری جماعت کی شکست سے زیادہ ایک مستحکم سیاسی سمت کی ضرورت ہے۔ معاشی بحران، مہنگائی، عالمی دباؤ اور داخلی انتشار ایسے مسائل ہیں جن کا حل مسلسل لڑائی میں نہیں بلکہ مشترکہ حکمتِ عملی میں پوشیدہ ہے۔ مفاہمت کا مطلب یہ نہیں کہ سب ایک دوسرے سے متفق ہو جائیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود نظام کو چلنے دیا جائے۔ راستہ دینا اور راستہ لینا اسی سیاسی شعور کا نام ہے۔
اقبال نے افراد اور اقوام کے تعلق کو جس انداز میں بیان کیا تھا، وہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ سیاست دان محض اپنی ذات یا جماعت کے نمائندے نہیں ہوتے بلکہ وہ پوری قوم کے مقدر کے ستارے بھی ہوتے ہیں۔ اگر یہ ستارے آپس میں ٹکراتے رہیں تو روشنی کم ہو جاتی ہے، اور اگر ایک ہی سمت میں چلیں تو راستہ روشن ہو جاتا ہے۔ آج پاکستان کو اسی روشن راستے کی ضرورت ہے، جہاں سیاست ضد اور انتقام کا نام نہ ہو بلکہ فہم، برداشت اور حکمت کا مظہر بنے۔
تحریک انصاف کا مالی بحران ہو یا دیگر جماعتوں کی سیاسی حکمتِ عملیاں، اصل سوال یہی ہے کہ ہم کس قسم کی سیاست چاہتے ہیں۔ کیا ہم ایسی سیاست چاہتے ہیں جو ہر اختلاف کو جنگ بنا دے، یا ایسی سیاست جو اختلاف کے باوجود ریاست کو آگے بڑھنے کا موقع دے؟ بلاول بھٹو کے پیغام کو اگر اس زاوئیے سے دیکھا جائے تو یہ محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک سنجیدہ انتباہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اب بھی راستہ نہ بدلا تو نقصان ناقابلِ تلافی ہو سکتا ہے۔
سیاست کا اصل حسن اسی میں ہے کہ وہ ممکنات کے دائرے میں رہ کر ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کرے۔ مفاہمت اسی فن کا بنیادی اصول ہے ۔ یہ اصول نہ ماننے والی جماعتیں وقتی طور پر سرخرو ہو سکتی ہیں، مگر تاریخ کے طویل سفر میں وہ خود کو تنہا پاتی ہیں۔ پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ ہم سیاست کو ذاتی انا، جماعتی ضد اور وقتی جذبات سے نکال کر قومی مفاد، ریاستی استحکام اور اجتماعی دانش کے راستے پر لے آئیں۔ یہی راستہ دینا اور راستہ لینا ہے، اور یہی سیاست کی اصل کامیابی ہے

مزید دکھائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button